مجھے تھاما، مجھے چوما
میری ہر نا پر چپ سادھ لیتے ہیں
میرے بابا کے گھر کے لوگ کتنے یاد آتے ہیں

وہ ہے اک ٹھنڈی چھاوں سی، دعایں دیتی رہتی ہے
وہ اک ہستی جو ہستے ہستے سب غم بانٹ لیتی ہے
اسے میں دوست بولوں یا خود سا جانوں میں
میرے بابا کے گھر میں میری ماں جو رہتی ہے

میری نادانیوں پے جو مجھے ہر پل ستاتے ہیں
میری مشکلوں کو جو ڈٹ کر بھگاتے ہیں
انہے میں جان بولوں یا جہاں کا مرکز جانو میں
میرے بابا کے گھر میں میرے بھائ جو رہتے ہیں

یہ اک انسان ہے جو میری سانسوں میں بستا ہے
میرا مرشد، میرا راہبر، میرے دل میں جو رہتا ہے
اسے میں نام کیا دوں، وہ تو میری ہستی کا موجب ہے
میرے بابا کے گھر میں بابا میری قائنات ہیں

Leave a comment